نعمت

 نعمت

نام قراۃالعین شفیق
نہر کے ساتھ ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں کے مکین اپنی روایتوں کے بہت پکے تھے-کرنے پر آتے تو وہ کرگزرتے جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا بچیاں پڑھنے کے لیے بہت کلومیٹر دور شہر جایا کرتی تھی علیزہ ثانیہ اپنے نام کی طرح شوخ و چنچل حسین وجمیل اور چلبلی سی تھی ہر بات کو چٹکیوں میں اڑادیتی تھی- اس کا ماننا تھا کہ وہ دنیا کا ہر کام کرسکتی تھی چالاک اتنی کہ کہ مجال ہے کوئی ہار سکے گاؤں کے لڑکوں میں بلو کے نام سے مشہور تھی علیزے بچپن سے ہی اپنے کزن کی منگیتر تھی نچاتی ایسے کہ جو دیکھتا بس دیکھتا رہ جاتا تھا علیزے کو اپنے گاؤں سے بہت محبت تھی اس کی مٹی اس کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی اس کا ماننا تھا کہ وہ اگر اس مٹی سے دور جاے گئ تو ماری جاے گی اس مٹی سے دور جاتی تھی تو اس کی روح مچلنے لگتی تھی پھر ایک خبر سنی کہ جنگ کا ڈر ہے اس لیے اس گاؤں میں مورچے بناے جاے گے علیزہ روز کی طرح آج بھی باغ سے مالٹے توڑنے جارہی تھی کنکر زور سے مالٹوں پر مارہی تھی کہ کسی نے کہا کہ کیا آپ کو نہیں پتا باہر نکلنے پر پابندی ہے اور آپ یہاں علیزہ بے دھیانی میں تم بھی کھاؤ نہ بہت میٹھے ہیں میں اےسی پی زید جہانزیب ہوں جسے گردونواح کے علاقوں کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا علیزے تو کرو نہ حفاظت میں اپنی حفاظت خود کرلوں گی اتنی ہی دیر میں دھڑ دھڑ گولیوں کے چلنے کی آواز آئی تو سخت سردی میں علیزے کے پسینے چھوٹ گئے اور زید کے پیچھے چھپ گی اس کی یہ ادا اے سی پی زید کے دل میں گھر کرگئی زید نے اسے گھر چھوڑا اور باقی کیپٹنز کو نقشے کے اوپر کچھ سمجھانے لگا تمام گاؤں والوں کو ہدایت کی گئی کہ گھر سے باہر نہ نکلے ضرورت کی ہر چیز گھر پہنچائی جاےگئ علیزہ نے جب سے دیکھا تھا اس کو بس سوچے جارہی تھی کتنا حسن تھا اس کے چہرے میں کتنا نڈر تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی علیزہ کو لگا جیسے وہ ہی آیا ہو گا علیزے نے جھٹ پٹ دروازہ کھولا اور سامنے آرمی ٹیم کے کچھ میمبرز بریانی تھامے کھڑے تھے علیزہ کی نظروں نے اسے تلاش کیا لیکن وہ نہیں تھا علیزہ مجھے بریانی بہت پسند ہے مجھے ایک ایکسٹرا شاپر دو نہیں تو میں یہی لیٹ جاؤں گی جب علیزہ نے شور مچایا تو پیچھے سے آواز آئی شور کس چیز کا ہے وہ سر جی وہ یہ کہہ رہی دو شاپر چاہیے مجھے ایکسٹرایہ تھا ڈی پی او زین جس نے ایک کی بجائے دو شاپر کردیے تھے زید دے دو زین جس کا دل نہیں مان رہا تھا بہت مشکل سے دل پر پتھر رکھ کر اس نے علیزہ کو شاپر پکڑایا پھر رات کے دوران بہت ساری گولیاں چلیں علیزہ ساری رات رب سے اس کی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہی اذان کے ساتھ ہی خطرہ ٹل گیا صبح جنگل کی آگ کی طرح خبر پھیل گئی کہ رات دشمن اس علاقے پر قبضہ کرنے کی نیت سے آئے تھے لیکن اے سی پی زید نے ان کے منصوبے خاک میں ملا دیے سب لوگ مخالفین کی لاشیں دیکھنے جارہے تھے علیزہ بھی ضد کر کے گئی شاید دیدار یار ہو جائےزید نے بھی جب سے علیزہ ثانیہ کو دیکھا دل ہی دل میں اس سے عشق کرنے لگا تھا ادھر زید نے اظہارِ خیال کیا ادھر علیزہ نے اقرار عشق کیا یوں دشمنوں سے لڑتے لڑتے اس گاؤں کی بھینی بھینی مٹی س محبت کرتے کرتے کب دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگےکسی کو پتا ہی نہ چلا ادھر ریحان علیزہ کا منگیتر جب اسے ذرا سی بھی بھنک لگی اس نے رشتے توڑ دیا پھر ایک رات لڑائی ہوئی مخالفین اس زرخیز گاؤں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے جو آرمی کی موجودگی میں ناممکن تھا اس گاؤں کو تو بچا لیا گیا جس سے علیزہ کو اور یہاں کے مکینوں کو بہت پیار تھا لیکن لڑتے لڑتے زید بہت زخمی ہو گیا جب علیزہ کو اس کی خبرملی علیزہ نے رو رو کر برا ہال کر لیا جب باقی کیپٹنز کو اس چیز کا پتا چلا تو سب ادھر اکٹھے ہوگئے جن میں زید کا جگری یار ڈی ایس پی سید صائم جہانزیب تھا اس نے بلکتی علیزے کو دیکھنا تو وجہ پوچھی تو ڈی پی او زین جو طنز ومزاح میں اپنی مثال آپ تھا کہنے لگا گل اے واا بابا جی علیزہ ساڈے اے سی پی دی معشوق وا ڈی ایس پی نے اسے اپنی بہن بلایا اس کے آنسو پونچھے علیزہ کو ہمیشہ سے بڑے بھائی کی بہت خواہش تھی اس نے بھی صائم کو اپنا بھائی بلایا یوں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا علیزہ نے ایک غزل جو زید کو بہت پسند تھی
ہجومِ دوستاں ہونا ،
کسی سنگت کا مِل جانا ،
کبھی محفل میں ہنس لینا ،
کبھی خِلوت میں رو لینا ،
کبھی تنہائی ملنے پر
خود اپنا جائزہ لینا ،
کبھی دُکھتے کسی دل پر ،
تشفّی کا مرہم رکھنا ،
کسی آنسو کو چُن پانا ،
کسی کا حال لے لینا ،
کسی کا راز ملنے پر ،
لبوں کو اپنے سِی لینا ،
کسی بچے کو چھُو لینا ،
کسی بُوڑھے کی سُن لینا ،
کسی کے کام آ سکنا ،
کسی کو بھی دُعا دینا ،
کسی کو گھر بلا لینا ،
کسی کے پاس خود جانا ،
نگاہوں میں نمی آ نا ،
بِلا کوشش ہنسی آ نا ،
تلاوت کا مزہ آ نا ،
کوئی آیت سمجھ پانا ،
کبھی سجدے میں سو جانا ،
کسی جنت میں کھو جانا،
خدا کی ایک نعمت ہے ،
یوں اس گاؤں کی مٹی کی حفاظت کرنے کے لیے آنے والا زید آج علیزہ کا مجازی خدا تھا اور علیزہ کے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہیں تھے خدا نے انھیں ایک بیٹے اور بیٹی سے نوازا تھا بیٹی کا نام زویا اور بیٹے کا نام ایان رکھا گیا یوں دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارہے تھے

About akhtarsahu

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

x

Check Also

رمضان، مہنگائی اور ہمارے اسلاف کا کردار

رمضان، مہنگائی اور ہمارے اسلاف کا کردار تحریر سیدساجدعلی شاہ رمضان المبارک ...

Powered by Dragonballsuper Youtube Download animeshow