افغانستان کے مغربی شہر ہرات پر کنٹرول کے لیے طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان سخت لڑائی جاری ہے

کابل : افغانستان کے مغربی شہر ہرات پر کنٹرول کے لیے طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان سخت لڑائی جاری ہے۔ طالبان کے خلاف لڑنے والوں میں صرف افغان فوجی نہیں بلکہ دیگر طالبان مخالف جنگجو بھی ہیں۔ان جنگجوؤں کی قیادت اسماعیل خان نامی ایک بااثر مقامی کمانڈر کر رہے ہیں جنھیں مقامی طور پر امیر اسماعیل خان بھی کہا جاتا ہے۔ہرات شہر افغانستان کے اہم صوبے ہرات کا دارالحکومت ہے جس کی ایک طویل سرحد ایران کے ساتھ لگتی ہے۔ یہ تاریخی اور ثقافتی ورثے کے حوالے سے بھی نمایاں صوبہ ہے۔ملک کے مغربی حصے میں واقع یہ صوبہ افغانستان کا ایک اہم تجارتی مرکز بھی ہے چنانچہ اس پر قبضہ ہونا طاقت کی ایک اہم علامت سمجھا جاتا ہے۔جمعے کو ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ پر حملے میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت کے بعد سنیچر کو افغان فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان ایک بار پھر لڑائی نے شدت اختیار کی ہے۔یاد رہے کہ امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کے انخلا کے قریب آنے کے ساتھ ہی مئی کے مہینے سے ملک بھر میں تشدد کی لہر زور پکڑ گئی اور اب جیسے جیسے انخلا مکمل ہونے لگا ہے، طالبان ایک کے بعد ایک ضلعوں کا قبضہ حاصل کرتے جا رہے ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اب تک طالبان نے ایران اور ترکمانستان کے ساتھ واقع دو سرحدی چوکیوں کا بھی قبضہ حاصل کر لیا ہے۔اے ایف پی نے مقامی رہائشیوں اور حکام کے حوالے سے بتایا کہ ہرات کے نواحی علاقوں میں لڑائی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور سینکڑوں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر شہر کے مرکز کا رخ کر رہے ہیں۔ہرات کے گورنر عبدالصبور قانی کا کہنا ہے کہ زیادہ لڑائی انجیل اور گزارا کے علاقوں میں ہو رہی ہے جہاں ہوائی اڈہ بھی واقع ہے۔اُنھوں نے کہا: ‘اس وقت لڑائی جنوب اور جنوب مشرق میں ہو رہی ہے۔ ہم احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تاکہ شہریوں کی جانیں محفوظ رہیں۔اسماعیل خان کون ہیں اور طالبان کے خلاف کیوں سرگرمِ عمل ہیں؟عمر رسیدہ جنگجو کمانڈر اسماعیل خان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ 1980 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت حملے کے دوران روسی افواج کے خلاف لڑائی میں شریک رہے تاہم وہ طالبان کے بھی مخالف ہیں۔سنہ 1992 سے لے کر سنہ 1997 تک وہ صوبہ ہرات کے گورنر بھی رہے جس کے بعد وہ سنہ 1996 سے سنہ 2001 تک افغانستان میں قائم رہنے والی طالبان حکومت کی قید میں چلے گئے۔بی بی سی پشتو کے سید انور کے مطابق طالبان حکومت کے دوران وہ کچھ عرصے کے لیے قندھار میں قید بھی رہے جہاں سے وہ بعد میں فرار ہو گئے تھے۔اس کے بعد وہ سنہ 2001 سے سنہ 2004 تک دوبارہ ہرات کے گورنر رہے اور بعد میں 2005 سے سنہ 2013 تک حامد کرزئی کی حکومت میں وزیرِ توانائی و پانی بھی رہے۔سیاسی طور پر وہ برہان الدین ربانی کی جمعیتِ اسلامی سے وابستہ رہے ہیں جو طالبان کا مخالف سیاسی دھڑا ہے۔سید انور کے مطابق اسماعیل خان بعد میں بھی سیاسی طور پر بااثر رہے ہیں یہاں تک کہ موجودہ افغان صدر اشرف غنی بھی اُن سے مشاورت کرتے رہے ہیں اور اُنھوں نے حال ہی میں ہرات کے دورے میں اسماعیل خان سے ملاقات بھی کی۔

About akhtarsahu

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

x

Check Also

یمن: حوثیوں کے غیرملکی جہاز پر میزائل حملے میں ہلاکتوں میں اضافہ

یمن: حوثیوں نے بحیرہ احمر میں مغربی ملک کے ایک جہاز کو میزائل ...

Powered by Dragonballsuper Youtube Download animeshow